منگنی کے بعد منگیتر کی وفات ہونے سے عدت کا حکم

12 جنوری 2023

کیا فر ماتےہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک جگہ لڑکا اور لڑکی کے رشتے کے متعلق بات چل رہی تھی رشتہ طےپاتے وقت لڑکی والوں کی طرف سے شرط کے مطابق چار لاکھ روپے  بطورمہر طے پاگیا،دادا،بھائی،والد،ماموں ، چاچا،تایا،اور دیگررشتہ دارو ں کی موجودگی میں لڑکی کا ولی  اقرار کرتا ہے کہ ہم نے اپنی بیٹی آپ کے بیٹے کو دی ،اور سب لوگوں کی موجودگی میں تین مرتبہ اقرار کیا گیا   اورقبول کیا ، شریعت میں اس ایجاب قبول کی کیا حیثیت ہے ؟نکاح کی حیثیت ہے یاصرف منگنی کی ؟ نیز لڑکے اور لڑکی نے اس کےبعد پر بھی ایک دوسرے کو قبول کر لیا تھا کیا نکاح منعقد ہوگیا تھا یا نہیں ۔ مزید یہ کہ اب لڑکا فوت ہو چکا ہے اور رخصتی نہیں ہو سکی تھی کیا لڑکی پر عد ت فرض ہے یا نہیں۔

 


الجواب حامدا ومصلیا

صورت مسئولہ میں جومعاملہ طےپاگیا ہے  یہ اصل میں وعدہ نکاح ہے(جس کو عرف میں منگنی کہا جاتا ہے)اور شریعت میں وعدہ کو پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور بغیر کسی عذر کے وعدہ خلافی سخت گناہ ہےاس لئے اگر کوئی معقول عذر نہ ہو تو حتی الامکان اس وعدہ کو نہیں توڑنا چاہئے لیکن اگر توڑدیا لڑکا فوت ہو گیا    تو وعدہ نکاح ختم ہوجائے گا اوراس میں لڑکےسےطلاق دلوانے کی ضرورت نہیں بغیر طلاق کے بھی یہ وعدہ نکاح ختم ہو جائے گا اور لڑکی کا دوسری جگہ رشتہ کروانا بھی درست ہوگا لیکن لڑی  والے سخت گناہ گار ہوں گےاور اگر معقول عذر ہو  (جیسےلڑکا بُری عادتوں میں مبتلا ہو وغیرہ)تواس صورت میں  اس وعدہ کو توڑنے کی گنجائش ہے  اور کوئی گناہ بھی نہیں ہوگا۔

لہذا صورت مسئولہ میں بھی نکاح منعقد نہیں ہوا اور لڑکی پر عدت گزارنا ضروری نہیں ہے۔

 

كما قال الله تبارك وتعالى:

وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلاً.             

(سورة الإسراء /34)۔

 

وفی الصحيح البخاری:                   

عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " آية المنافق ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان.

 (1/ 61باب علامة المنافق /دار طوق النجاة)۔

 

وفى رد المحتار:

لو قال هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد، وإن كان للعقد فنكاح.

(3/ 112/1

(3/ 11 كتاب النكاح/دار الفكر).

 

وفی عمدة القاري شرح صحيح البخاري:                      

 (إذا وعد أخلف) نبه على فساد النية، لأن خلف الوعد لا يقدح إلا إذا عزم عليه مقارنا بوعده، أما إذا كان عازما ثم عرض له مانع أو بدا له رأي فهذا لم توجد فيه صفة النفاق، ويشهد لذلك ما رواه الطبراني بإسناد لا بأس به في حديث طويل من حديث سلمان، رضي الله عنه: (إذا وعد وهو يحدث نفسه أنه يخلف).

 (1/ 221 باب علامات المنافق/ دار إحياء التراث العربي).